اب تو آنکھوں سے پلایا جاۓ ان کی زلفوں پے لٹایا جاۓ لمس میں ان کے بجلیاں صدہا پس کہ خرمن کو جلایا جاۓ میں عدم میں ،وہ منتظر میرا کاش اک بار جگایا جاۓ غاصبوں نے قلم بھی چھین لیا اب کے نشتر ہی اٹھایا جاۓ بھر گیا دل تری کرامت سے اب نہ اعجاز دکھایا جاۓ پس کہ کہنے کو کیا رہا باقی نام ارسل کا مٹایا جاۓ