Submit your work, meet writers and drop the ads. Become a member
May 1
جب کلیجہ منہ کو آ جائے تو حد سے گزر جانے کا جی چاہتا ہے
ہمارے الفاظ کا تو ان پر کوئی اثر نہیں
اب اپنی خاموشی سے چیخنے چلانے کا جی چاہتا ہے
پھر بھی بار بار اس پتھر سے اس لیے ٹکراتے ہیں
کیونکہ ہمیں اپنا سبر آزمانے کا جی چاہتا ہے
ہم تو اپنے ظرف کا امتحان لے رہے ہیں
ورنہ کس کو اپنی غلطی دوہرانے کا جی چاہتا ہے
فقط اس لیے کہ اب گرانے کو کوئی آنسو نہیں بچے
آج کل بہ وجہ مسکرانے کا جی چاہتا ہے
Written by
Hafsa S  28/F
(28/F)   
  158
 
Please log in to view and add comments on poems