جب کلیجہ منہ کو آ جائے تو حد سے گزر جانے کا جی چاہتا ہے ہمارے الفاظ کا تو ان پر کوئی اثر نہیں اب اپنی خاموشی سے چیخنے چلانے کا جی چاہتا ہے پھر بھی بار بار اس پتھر سے اس لیے ٹکراتے ہیں کیونکہ ہمیں اپنا سبر آزمانے کا جی چاہتا ہے ہم تو اپنے ظرف کا امتحان لے رہے ہیں ورنہ کس کو اپنی غلطی دوہرانے کا جی چاہتا ہے فقط اس لیے کہ اب گرانے کو کوئی آنسو نہیں بچے آج کل بہ وجہ مسکرانے کا جی چاہتا ہے