نہ پوچھو ہم سے باہر کا موسم ہم تو بس دل کا موسم جانتے ہیں نہ دو ہم کو لوگوں کے حوالے ہم تو بس تمہارے چہرے کو پہچانتے ہیں نہ کرو ہم سے دنیا کی باتیں ہم تمہیں ہی اپنا پورا جہان مانتے ہیں
اب تو نہ سونے کا پتا ہے نہ جاگنے کا نہ پہنے کا شوق ہے نہ اوڑھنے کا نہ کھانے کا ہوش ہےنہ پینے کا میری ساری سوچوں پے ہے تمہارا قبضہ ایک تم ہی تو ہو مقصد میرے جینے کا
خوشی آتی ہے تو پوچھتا ہے یہاں کیا کر رہی ہوں اس گلی میں تو تمہارا گزر بسر نہیں ترس ترس کے ایسا پتھر کا ہو گیا ہے اب اگر خوشی آ بھی جائے تو اس دل پر کوئی اثر نہیں