عجب تشویش کا آلم ہے اپنے ہی گھر جانے سے ڈر لگتا ہے سڑک سے دہلیس تک کا دو قدم کا فاصلہ میلوں کا سفر لگتا ہے یہ گھر نہیں ایک مہمان خانہ ہے جہاں کا ہر فرد اس بات سے بے خبر لگتا ہے ان کی آنکھوں کے آئینے سے دیکھوں تو اپنا وجود کتنا بے قدد لگتا ہے اب یہاں کب کوئی آتا ہے، کب چلا جاتا ہے دل اس سوچ سے بے فکر سا لگتا ہے سج میں عجب تشویش کا آلم ہے مجھے خوف خدا ہے اور تمہیں لوگوں کی باتوں سے ڈر لگتا ہے ہاں، مایوسی گناہ ہے مگر ایسا کیوں کر لگتا ہے کہ کچھ تبدیل نہیں ہو گا۔ ۔ ۔