Submit your work, meet writers and drop the ads. Become a member
Aug 2023
پ
کہاں تک کو چلی پھرتی ہوں
چھوٹی چھوٹی گم راتوں میں

چھوٹی چلتی چلی باتوں میں
کیسے سنساں ہو جاتی ہوں

کیسے چھپی گلیوں سرہانے
اکسر رکی سی جاتی ہوں

اکسر ہی سیاہ سنم سایوں میں
ایسی جھکی سی جاتی ہوں

جیسے خدا کھلا کھڑا ہو کوی
جیسے مجھے بلا رہا ہو کوی

کیا کوی بلا رہا تو نہیں؟
یوں ہی پوچھتی جاتی ہوں

نہ رات، نہ رنگ، نہ راغ رنج
پھر بھی کھڑی سنتی رہتی ہوں

ایک شور سا سفید، ایک ڈانٹ جیسے
کیوں میں سب کچھ سہ جاتی ہوں

شام سمندر سڑکوں پر
سب بھول جاتی ہوں، سب بھول آتی ہوں

سب سکت شکستہ ساتھی اپنے
سب لپٹے لال لیے جاتی ہوں

کوی پوچھے جو نام تو مڑ کر
پھر کیوں تیرا ہی نام بتاتی ہوں

کیوں مدھم مسافر تجھے مٹا کر
خود اب بار بار بلاتی ہوں

بخستا سی یاد کے موڑ پر
خود اب انتظار کیے جاتی ہوں

بجھتے سماں کے چہرے پر
تجھے سجا کے دل بہلاتی ہوں

کیوں بہلتا ہے دل منافق میرا
   کیوں اسے قریب کیے جاتی ہوں

آہ، کم خواب چٹانی راتوں میں اب
کیوں میں رکی چلی جاتی ہوں
15/08/2023
Ayesha
Written by
Ayesha  19/F/Silver Sea
(19/F/Silver Sea)   
Please log in to view and add comments on poems